- Get link
- X
- Other Apps
درست تحریر کے لیے اہم باتیں
-درست تحریر خبر کے اعلئ معیار کے لیے نہایت ضروری ہے- وہ کیا ایسی باتیں ہیں جو زبان کے لکھنے میں مد نظر رکھنا ضروری ہیں
پہلی ضرورت:
ہمیشہ جو کچھ لکھیں اسے کم سے کم ایک بار ضرور پڑھ لیں۔ جب آپ لکھنے بیٹھتے ہیں تو آپ کا خیال ، آپ کے قلم یا کی بورڈ پر انگلیوں کی رفتار سے زیادہ تیز چلتا ہے۔انگلیاں جب خیال کے ساتھ دوڑ لگاتی ہیں تو غلطیاں کرجاتی ہیں۔ ان میں صرف زبان کی غلطیاں نہیں ہوتیں بلکہ facts کی غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں۔
اگر آپ اپنے لکھے ہوئے کو دوبارہ پڑھ لیں توان غلطیوں کو خود ہی ٹھیک کرلیں گی/ کرلیں گے۔
ایک مثال دیکھیے جس میں ایک چھوٹی سی غلطی ہے جو سکرپٹ کو دوسری بار پڑھنے سے دور کی جاسکتی تھی:
پولیس کے مطابق ڈبل کیبن میں سوار نامعلوم ملزمان نے سکول پر قبضہ سے پہلے ضلع کرک سے ایک سرکاری افسر اور ان کے ڈرائیور کو اغواء کر کے لے جا رہے تھے۔ کرک سے ایک سرکاری افسر نے بی بی سی بتایا کہ اغواء ہونے والوں میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کرک کے انچارج شامل ہیں۔
پہلی سطر میں ’نے‘ غلط ہے۔ دوسری سطر میں بی بی سی کے بعد ’کو‘ ہونا چاہیے ۔ بالکل اسی طرح کی ایک اور مثال:
سائنسدانوں نے آتش فشانی کا سراغ ریڈار سے حاصل کردہ معلومات سے لگیا جو کہ سنہ دو ہزار چار اور پانچ کے دوران ایک فضائی سروے میں حاصل کی گئی تھیں۔
اس جملے میں بھی لگایا کی بجائے لگیا لکھ دیا گیا ہے
میں جانتا ہوں کہ آپ انہیں ٹائپنگ کی غلطیاں کہیں گے جو ہر تحریر میں ہوتی ہیں لیکن اگر غور کیجۓ تو ہماری تحریروں میں ایسی غلطیوں کی مثالیں کچھ زیادہ ہی مل جائیں گی۔
ٹائپنگ کی ضرورت سے زیادہ غلطیوں کا نقصان براڈکاسٹنگ میں یہ ہوتا ہے کہ مائیکروفون کے سامنے ہم ہچکچاتے ہیں، رکتے ہیں، زبان ٹھوکر کھا جاتی ہے۔
آن لائن پر پڑھنے والا الجھن محسوس کرتا ہے۔ اور ایک آئٹم میں ایک سے زیادہ غلطیاں نظر آئیں تو اس کی طبیعت اچاٹ ہو جاتی ہے۔
دونوں صورتوں میں سننے اور پڑھنے والے کا اعتماد ہم کھو بیٹھتے ہیں۔
دوسری ضرورت:
غیر ضروری الفاظ کا استعمال نہ کیجیے۔
ایران کے متنازعہ نیوکلیئر پروگرام کو روکنے کے لیے اس قرارداد کے تحت تجویز کردہ پابندیوں کی چین اور روس نے مخالفت کرنے کی کافی کوششیں کیں۔
غور کیجیے تو اس جملے میں کے تحت غیر ضروری ہے، صرف میں سے کام چل سکتا تھا۔ یعنی قرارداد میں تجویز کردہ
اسی طرح آگے چل کر مخالفت کے بعد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یعنی مخالفت کی کافی کوششیں کیں۔
ایک اور مثال:
اس اعزاز کے اعلان کے بعد ایک بیان میں بارڈم نے کہا کہ ایسے میں جب اس زمرے میں بہت سی شاندار کارکردگیاں موجود ہیں انہیں یہ ایوارڈ ملنا ان کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔
کیا صرف یہ کافی نہیں تھا یہ ایوارڈ ان کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔
تیسری اور چوتھی ضرورت:
چھوٹے چھوٹے جملے، چھوٹے چھوٹے پیراگراف، ایک پیرے میں ایک سے زیادہ باتوں سے اجتناب۔
اس اصول کی مدد سے آپ کی تحریر میں روانی آجاتی ہے۔ اسے پڑھنا آسان ہو جاتا ہے۔ قاری کو بار بار واپس جاکر بات سمجھنے کی تکلیف برداشت نہیں کرنی پڑتی اور سب سے بڑھ کر قاری کا ذہن آپ کی فراہم کردہ معلومات کو قبول کرتا جاتا ہے۔
یہاں صرف ایک مثال اس لیے دے رہا ہوں تاکہ آپ کو اندازہ ہوجائے کہ طویل جملے کیسی مشکل پیدا کرسکتے ہیں:
یاد رہے کہ پاکستان میں جنرل مشرف نے بطور آرمی چیف اپنے صدر بن جانے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے پیشتر ہی تین نومبر کو آئین معطل کرکے چیف جسٹس افتخار چودھری سمیت عدالت عظمی اور ہائی کورٹوں کے ساٹھ ججوں کو برطرف کردیا تھا جس کے خلاف وکلاء اب تک احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس جملے کو کیسے آسان بنایا جاسکتا تھا:
یاد رہے کہ تین نومبر کو صدر شرف نے اس وقت آئین معطل کردیا تھا جب وہ بطور آرمی چیف صدر تو بن چکے تھے لیکن سپریم کورٹ کا فیصلہ ابھی تک نہیں آیا تھا۔ اسی کے ساتھ انہوں نے چیف جسٹس افتخار چودھری سمیت عدالت عظمیٰ اور ہائی کورٹوں کے ساٹھ ججوں کو بھی برطرف کردیا تھا۔ اس کے خلاف وکلاء اب تک احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پانچویں ضرورت:
انگریزی زبان میں clauseاورsub clause کی مدد سے پیچیدہ باتیں آسانی کے ساتھ ادا کی جاسکتی ہیں لیکن اردو کا مزاج بالکل مختلف ہے۔ اس میں جملے کے اندر جملہ بات کو اتنا الجھا دیتا ہے کہ اسے بار بار پڑھنا پڑتا ہے۔ اردو میں عام طور سے طویل جملے میں دو تین باتیں ایک ساتھ بتانےکی جب کوشش کی جاتی ہے تو عالموں اور دانشوروں کی تحریروں میں تو یہ انداز برا نہیں لگتا لیکن صحافتی تحریر میں الجھن کا باعث بن سکتا ہے۔ ایک مثال دیکھیے:
فروری 2007 میں انہوں نے افغانستان میں اطالوی فوجیوں کی تعیناتی اور شمالی اٹلی میں اپنے فوجی اڈے کی توسیع کے امریکی منصوبے پر بائیں بازو کے سیاستدانوں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد استعفیٰ دے دیا۔
غور کیجیے تو اس جملے کو بڑی آسانی سے اس طرح توڑ کے لکھا جاسکتا تھا:
فروری 2007 میں انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔کیونکہ وہ افغانستان میں اطالوی فوجیوں کی تعیناتی اور شمالی اٹلی میں امریکی فوجی اڈے کی توسیع کے منصوبے پر بائیں بازو کے سیاست دانوں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔
تو یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اردو میں طویل جملے، خاص طور سے وہ جن میں جملوں کے اندر جملے ہوتے ہیں، قابل قبول نہیں ہوتے۔ ایسے جملوں کو توڑ کے کئی فقرے بنا لینے چاہئیں۔
چھٹی ضرورت:
ناموں کے ہجے spellings اور ان کے تلفظ کی درستی کا خیال رکھیے۔
مثلاً:
یہ القائدہ ہے یا القاعدہ
حامد کرزائی ہے یا کرزئی
براک اوباما ہے یا بارک اوباما
سرکوزی ہے یا سارکوزی
ریڈیو پر درست تلفظ اور آن لائن پر درست ہجے آپ کی تحریر کو معتبر بنا دیتے ہیں۔
- Get link
- X
- Other Apps
Comments
Post a Comment