حضرت مولانا محمد تنویر ہرجولی
🌹🌹سراپا درد ہوں 🌹🌹
حسرت بھری ہے داستان میری
محمد تنویر ہرجولی
آج کے اس پر فتن دور میں مسلمان کس حد تک ذلت و نکبت، رسوائی وبے چارگی سے دوچار ، اخلاقی گراوٹ کے شکار، گناہوں اور معصیتوں سے لت پت ہیں ، وہ کسی کی نگاہ سے اوجھل نہیں ، مسلمان آج شیطان مردود کے چیلے بنے ہوئے ہیں ، سودی کاروبار کو ہوا دے رہے ہیں ، جگہ جگہ پر سنیما گھر ، جوے کے اڈے اور میکدے بنائے جارہے ہیں، مرد و عورت کا مخلوط ماحول عام ہوچکا ہے ، یونیورسٹیوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کا اختلاط روز مرہ کا فیش بنا ہوا ہے ،خواتین کی ننگی تصاویر اور عریانیت نیو کلچر کے نام پر رواں ہیں ، مسلمان خواتین کا بے حجاب دکان و شاپنگ مالز میں ملازمت کرنا ، نیز گناہوں سے خود اجتناب کے بجائے دوسروں کو دعوت دینا ، چوری وڈاکہ جھوٹ وغیبت ، بہتان والزام تراشی ، گانا سننا وسنانا موبائل فون پر وقت ضائع کرنا وغلط چیز کو دیکھنا، نمازوں کا چھوڑنا اور ایسے ہزاروں گناہوں میں مبتلا ہیں جن کو بیان کرنے سے سر شرم کے مارے جھک جاتا ہے۔چنانچہ ارشاد ربانی ہے
"كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۔(القرآن )
تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہو تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
"والذی نفسی بیدہ لتأمرن بالمعروف ولتنھون عن المنکر أو لیوشکن اللہ أن یبعث علیکم عقابا منہ، ثم تدعونہ فلا یستجاب لکم” (ترمذی، حدیث حسن)
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! تم یا توبھلائی کا حکم دوگے اور برائی سے روکوگے یا پھر قریب ہے کہ اللہ تم پر اپنا عذاب بھیجے۔ پھر جب تم اسے پکاروگے تووہ تمہاری سنےگا بھی نہیں۔
اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ کے حدود پر قائم رہنے اور ان کے اندر داخل ہو جانے والے کی مثال ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے ایک کشتی پر قرعہ اندازی کی تو کچھ کو بالائی حصہ ملا اور کچھ کو نیچے کا۔ پھر نیچے والوں کو پانی کی ضرورت ہوتی تو وہ اوپر والوں کے پاس جاتے۔ تب ان لوگوں نے سوچا کہ اگر ہم اپنے حصے میں سوراخ کر دیں اور اپنے اوپر والوں کو تکلیف نہ دیں تو اچھا ہوگا۔ اب اگر اوپر والے ان نیچے والوں کو ان کے ارادے پر عمل کرنے سے نہ روکیں اور انہیں علی حالہ چھوڑ دیں، تو سب کے سب ہلاک وبرباد ہوجائیں گے۔ اور اگر بروقت انہیں روک دیں تو وہ سب ہلاک ہونے سے بچ جائیں گے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
“من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ، فإن لم یستطع فبلسانہ، فإن لم یستطع فبقلبہ، وذلک أضعف الإیمان۔ بخاری
"تم میں سے جو کوئی منکر دیکھے، تو اسے اپنے ہاتھ سے بدلے۔ اگر طاقت نہیں ہو تو اپنی زبان سے بدلے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اپنے دل سے ہی برا سمجھے۔ مگر یہ ایمان کا سب سے کم تر درجہ ہے۔
تو ایسی صورت میں دعوت وتبلیغ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جو اسلام کے جسم کی ریڑھ کی ہڈی ہے، جس پر اسلام کا دارومدار ، اس کی قوت و وسعت اور کامیابی و کامرانی منحصر ہے ، یہی وہ چیز ہے جو نام کے مسلمان کو دینی واسلامی مسلمان بناسکتا ہے ، اس میں اپنی پوری طاقت محنت قوت صرف کریں ، جس طرح دنیا دار آدمی دنیا کو حاصل کرنے کے لیے اپنی پوری طاقت محنت لگاتا ہے ، اسلام میں مسلمانوں پر سب سے زیادہ پر فتن دور جو گزرا وہ تاتاری سیلاب کا گزرا ، جس نے اسلامی سلطنتوں کو تباہ و برباد کردیا تھا ، قریب تھا کہ مسلمانوں کا نام و نشان تک باقی نہ رہے ، مگر جب ان پر دعوت و تبلیغ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام ہوا اور جب داعیان اسلام نے دشمنوں کے دلوں میں گھر کرنا شروع کیا ، تو وہ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے اور اپنی رعایا کو بھی اسلام میں داخل ہونے کا حکم دیا ، پھر انہیں تاتاریوں سے اللہ نے ایسا کام لیا کہ جس کی کوئی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی ، انہیں تاتاریوں نے ترکی کے ایک بڑے حصے کو اسلام میں داخل کیا ،انہیں تاتاریوں نے اسلام کو چین کے اندر پہنچایا ، انہیں تاتاریوں نے اسلام کو روس کے اندر پہنچایا ، پھر وہی تاتاری بیت اللہ کے محافظ بھی بنے رہے ، جن کے بارے میں شاعر ِمشرق علامہ اقبال کہتے ہیں۔
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
اگر ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائیوں سے روکنے کے کام سے یوں ہی غفلت برتتے رہے ، تو ہمارے معاشرے کو تباہ وبرباد ہونے سے کوئی چیز بچا نہیں سکتی۔
ہم پر ضروری ہے کہ ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری ادا کریں اللہ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔ آمین
17/رمضان المبارک 1441ھ
حسرت بھری ہے داستان میری
محمد تنویر ہرجولی
آج کے اس پر فتن دور میں مسلمان کس حد تک ذلت و نکبت، رسوائی وبے چارگی سے دوچار ، اخلاقی گراوٹ کے شکار، گناہوں اور معصیتوں سے لت پت ہیں ، وہ کسی کی نگاہ سے اوجھل نہیں ، مسلمان آج شیطان مردود کے چیلے بنے ہوئے ہیں ، سودی کاروبار کو ہوا دے رہے ہیں ، جگہ جگہ پر سنیما گھر ، جوے کے اڈے اور میکدے بنائے جارہے ہیں، مرد و عورت کا مخلوط ماحول عام ہوچکا ہے ، یونیورسٹیوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کا اختلاط روز مرہ کا فیش بنا ہوا ہے ،خواتین کی ننگی تصاویر اور عریانیت نیو کلچر کے نام پر رواں ہیں ، مسلمان خواتین کا بے حجاب دکان و شاپنگ مالز میں ملازمت کرنا ، نیز گناہوں سے خود اجتناب کے بجائے دوسروں کو دعوت دینا ، چوری وڈاکہ جھوٹ وغیبت ، بہتان والزام تراشی ، گانا سننا وسنانا موبائل فون پر وقت ضائع کرنا وغلط چیز کو دیکھنا، نمازوں کا چھوڑنا اور ایسے ہزاروں گناہوں میں مبتلا ہیں جن کو بیان کرنے سے سر شرم کے مارے جھک جاتا ہے۔چنانچہ ارشاد ربانی ہے
"كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۔(القرآن )
تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہو تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
"والذی نفسی بیدہ لتأمرن بالمعروف ولتنھون عن المنکر أو لیوشکن اللہ أن یبعث علیکم عقابا منہ، ثم تدعونہ فلا یستجاب لکم” (ترمذی، حدیث حسن)
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! تم یا توبھلائی کا حکم دوگے اور برائی سے روکوگے یا پھر قریب ہے کہ اللہ تم پر اپنا عذاب بھیجے۔ پھر جب تم اسے پکاروگے تووہ تمہاری سنےگا بھی نہیں۔
اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ کے حدود پر قائم رہنے اور ان کے اندر داخل ہو جانے والے کی مثال ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے ایک کشتی پر قرعہ اندازی کی تو کچھ کو بالائی حصہ ملا اور کچھ کو نیچے کا۔ پھر نیچے والوں کو پانی کی ضرورت ہوتی تو وہ اوپر والوں کے پاس جاتے۔ تب ان لوگوں نے سوچا کہ اگر ہم اپنے حصے میں سوراخ کر دیں اور اپنے اوپر والوں کو تکلیف نہ دیں تو اچھا ہوگا۔ اب اگر اوپر والے ان نیچے والوں کو ان کے ارادے پر عمل کرنے سے نہ روکیں اور انہیں علی حالہ چھوڑ دیں، تو سب کے سب ہلاک وبرباد ہوجائیں گے۔ اور اگر بروقت انہیں روک دیں تو وہ سب ہلاک ہونے سے بچ جائیں گے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
“من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ، فإن لم یستطع فبلسانہ، فإن لم یستطع فبقلبہ، وذلک أضعف الإیمان۔ بخاری
"تم میں سے جو کوئی منکر دیکھے، تو اسے اپنے ہاتھ سے بدلے۔ اگر طاقت نہیں ہو تو اپنی زبان سے بدلے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اپنے دل سے ہی برا سمجھے۔ مگر یہ ایمان کا سب سے کم تر درجہ ہے۔
تو ایسی صورت میں دعوت وتبلیغ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جو اسلام کے جسم کی ریڑھ کی ہڈی ہے، جس پر اسلام کا دارومدار ، اس کی قوت و وسعت اور کامیابی و کامرانی منحصر ہے ، یہی وہ چیز ہے جو نام کے مسلمان کو دینی واسلامی مسلمان بناسکتا ہے ، اس میں اپنی پوری طاقت محنت قوت صرف کریں ، جس طرح دنیا دار آدمی دنیا کو حاصل کرنے کے لیے اپنی پوری طاقت محنت لگاتا ہے ، اسلام میں مسلمانوں پر سب سے زیادہ پر فتن دور جو گزرا وہ تاتاری سیلاب کا گزرا ، جس نے اسلامی سلطنتوں کو تباہ و برباد کردیا تھا ، قریب تھا کہ مسلمانوں کا نام و نشان تک باقی نہ رہے ، مگر جب ان پر دعوت و تبلیغ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام ہوا اور جب داعیان اسلام نے دشمنوں کے دلوں میں گھر کرنا شروع کیا ، تو وہ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے اور اپنی رعایا کو بھی اسلام میں داخل ہونے کا حکم دیا ، پھر انہیں تاتاریوں سے اللہ نے ایسا کام لیا کہ جس کی کوئی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی ، انہیں تاتاریوں نے ترکی کے ایک بڑے حصے کو اسلام میں داخل کیا ،انہیں تاتاریوں نے اسلام کو چین کے اندر پہنچایا ، انہیں تاتاریوں نے اسلام کو روس کے اندر پہنچایا ، پھر وہی تاتاری بیت اللہ کے محافظ بھی بنے رہے ، جن کے بارے میں شاعر ِمشرق علامہ اقبال کہتے ہیں۔
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
اگر ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائیوں سے روکنے کے کام سے یوں ہی غفلت برتتے رہے ، تو ہمارے معاشرے کو تباہ وبرباد ہونے سے کوئی چیز بچا نہیں سکتی۔
ہم پر ضروری ہے کہ ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری ادا کریں اللہ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔ آمین
17/رمضان المبارک 1441ھ
11/مئی 2020
Comments
Post a Comment