حضرت مولانا محمد تنویر ہرجولی
🌹تحریک اصلاح معاشرہ 🌹
قسط نمبر 2
🌹 بچوں کی صحیح تربیت
دین کا اہم فریضہ ہے 🌹
🖋محمد تنویر ہرجولی
اس میں کوئی شک نہیں کہ بچہ کا سب سے پہلا مدرسہ ماں کی گود ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بچہ کا بنیادی داخلہ نو مہینے تقریبا رحم مادر میں رہتا ہے وہیں سے در اصل عطار، رومی،رازی اورغزالی کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور ان کے اندر بختیار کاکی اور بایزیدبسطامی جیسا بننےکا صور پھونکا جاسکتا ہے اس لیے اسی وقت سے ان کی صحیح دیکھ بھال کرنے کے لیے خود گناہوں سے اجتناب کی از حد ضرورت ہے۔
بچے مستقبل میں اپنے معاشرے کے معمار اور سرمایہ ہوتے ہیں ،اس لئے ضروری ہے کہ ان کی صحیح تربیت ، دینی رہنمائی اور اخلاقی تربیت کی جائے ، تاکہ وہ بچے بڑے ہونے کے بعد دینی فریضہ پر عمل پیرا ہوں سکیں ،اسلام پر ہونے والی سازشوں کے خلاف آہنی دیوار وسد سکندری بن کر کھڑے ہوں جائیں گے، اولاد کی بہتر تربیت دنیا میں والدین کے لئے نیک نامی کا باعث اور آخرت میں کامیابی و کامرانی کا سبب ہے ، اگر ان کی صحیح تربیت و رہنمائی نہیں کی گئی ، تو ان سے بڑے ہونے کے بعد کسی بھی بھلائی کی توقع نہیں کی جاسکتی اور اس کے ذمہ دار وقصور وار خود والدین ہوں گے اور دنیا میں تووہ بچے والدین کے لئے وبال جاں ہوں گے ہی آخرت میں بھی عذاب الہی کا سبب بنیں گے.
ارشاد ربانی ہے ۔
قُوْا أَنْفُسَکُمْ وَأَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ“
ترجمہ:”اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں
اللہ نے لفظ" نار " کا استعمال کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ماں باپ اپنی اولاد کو گناہوں سے اس طرح بچانا چاہیئے جس طرح ان کو آگ سے بچاتے ہیں ، مثلاً ایک بڑی آگ سلگ رہی ہو اور آپ کا نادان بچہ اس آگ کی طرف بڑھ رہا ہو ، توآپ بتائیں کہ آپ اسے منہ سے کہیں گے یا ہاتھ سے روکیں گے؟
یقیناً ہاتھ سے روکو گے اسی طرح اپنے بچوں کو آخرت میں جلنے سے روکنا ہے ۔
آج ہماری فطرت توحید کے منافی صدائیں لگارہی ہیں ، ہم دین کے علاوہ بچہ کے تعلق سے ہرچیز کی فکر کرتے ہیں کہ اس کی تعلیم شاندار بن جائے ، اس کا کیرئیر اچھا بنے ، اچھی جدید انگریزی بولے ، معاشرے میں اس کا مقام عمدہ ہو، اس کو اچھی ملازمت مل جائے ، کھانے پینے کا نظام اچھا ہو ، بچوں کو ایسے نرسری اسکول، کالج اور انگلش میڈیم میں داخل کیا جاتا ہے ، جہاں اللہ کا نام تو سکھایا ہی نہیں جاتا بلکہ اللہ سے دوری کا راستہ دکھایا جاتا ہے اور عقیدے کا ستیاناس کردیا جاتاہے ، دین کی باتیں نہیں سکھائی جاتی ،بلکہ بددینی، وبددیانتی، بد عہدی اور دنیاوی آسائش کی طرف رغبت دلائی جاتی ہے ۔جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ مسلم نوجوان کو کلمہ، قرآن مجید، نماز وغیرہ صحیح طریقہ سے پڑھنا نہیں آتا ،اور دین سے ناآشنائی کی بنیاد پر ارتداد کی راہ پر گامزن ہو جاتےہیں ،جیسا کہ وقتافوقتادیکھنے میں بھی آرہا ہے کہ کھلم کھلا ارتداد کا اعلان بھی کیاجاتاہے ۔اور ابھی حال ہی میں ہریانہ میں اسی ارتداد کی ایک نظیر دیکھنے کو ملی ہے۔
ہرچیز کی طرف توجہ رہتی ہے مگر دین اور دین کی تعلیمات کی طرف جیسی توجہ ہونی چاہیے ویسی نہیں ہے ۔
حدیث کے بیان کے مطابق اللہ تعالٰی کی ایک سنت ہے کہ جو شخص کسی مخلوق کو راضی کرنے کے لئے اللہ کو ناراض کرے ، تو اللہ تعالیٰ اسی مخلوق کو اس پر مسلط فرما دیتے ہیں ، بچوں کو راضی کرنے کی خاطر یہ سب جہنمی کام مول لے لیتے ہیں تا کہ ان کا کیرئیر اچھا ہو آمدنی اچھی ہو مقام اچھا ہو ۔
دین نہ سکھا کر اللہ کو ناراض بھی کیا ،اور نتیجتا وہی اولاد جس کو راضی کرنے کی فکر تھی وہی اولاد ماں باپ کے سر پر مسلط ہوجاتی ہیں اور ماں باپ کی نافرمان بن جاتی ہیں اور حالات یہاں تک آجاتے ہیں کہ اولاد اپنے ماں باپ کو بہت ہی جلد بڈھاپے کی طرف دھکیل دیتے ہیں،
پہلے خود نماز کی پابندی کریں ، پھر اپنے بچوں کو سات سال کی عمر سے نماز کی تاکید کریں اور حرام خوری سے بچیں اور بچوں کو بچانے کی فکر کریں ، ان کےروبرو جھوٹ نہ بولیں ، بچوں کو اسلامی آداب سکھائیں ، بچوں کو دین کی تعلیم دیں ،اللہ و رسول کا کلمہ سکھائیں ، ان کوکم سے کم دین کی موٹی موٹی باتیں سکھائیں.
اللہ تمام امت مسلمہ کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کا مستقبل سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
17 رمضان المبارک 1441ھ
مطابق 11 مئی 2020ء
قسط نمبر 2
🌹 بچوں کی صحیح تربیت
دین کا اہم فریضہ ہے 🌹
🖋محمد تنویر ہرجولی
اس میں کوئی شک نہیں کہ بچہ کا سب سے پہلا مدرسہ ماں کی گود ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بچہ کا بنیادی داخلہ نو مہینے تقریبا رحم مادر میں رہتا ہے وہیں سے در اصل عطار، رومی،رازی اورغزالی کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور ان کے اندر بختیار کاکی اور بایزیدبسطامی جیسا بننےکا صور پھونکا جاسکتا ہے اس لیے اسی وقت سے ان کی صحیح دیکھ بھال کرنے کے لیے خود گناہوں سے اجتناب کی از حد ضرورت ہے۔
بچے مستقبل میں اپنے معاشرے کے معمار اور سرمایہ ہوتے ہیں ،اس لئے ضروری ہے کہ ان کی صحیح تربیت ، دینی رہنمائی اور اخلاقی تربیت کی جائے ، تاکہ وہ بچے بڑے ہونے کے بعد دینی فریضہ پر عمل پیرا ہوں سکیں ،اسلام پر ہونے والی سازشوں کے خلاف آہنی دیوار وسد سکندری بن کر کھڑے ہوں جائیں گے، اولاد کی بہتر تربیت دنیا میں والدین کے لئے نیک نامی کا باعث اور آخرت میں کامیابی و کامرانی کا سبب ہے ، اگر ان کی صحیح تربیت و رہنمائی نہیں کی گئی ، تو ان سے بڑے ہونے کے بعد کسی بھی بھلائی کی توقع نہیں کی جاسکتی اور اس کے ذمہ دار وقصور وار خود والدین ہوں گے اور دنیا میں تووہ بچے والدین کے لئے وبال جاں ہوں گے ہی آخرت میں بھی عذاب الہی کا سبب بنیں گے.
ارشاد ربانی ہے ۔
قُوْا أَنْفُسَکُمْ وَأَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ“
ترجمہ:”اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں
اللہ نے لفظ" نار " کا استعمال کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ماں باپ اپنی اولاد کو گناہوں سے اس طرح بچانا چاہیئے جس طرح ان کو آگ سے بچاتے ہیں ، مثلاً ایک بڑی آگ سلگ رہی ہو اور آپ کا نادان بچہ اس آگ کی طرف بڑھ رہا ہو ، توآپ بتائیں کہ آپ اسے منہ سے کہیں گے یا ہاتھ سے روکیں گے؟
یقیناً ہاتھ سے روکو گے اسی طرح اپنے بچوں کو آخرت میں جلنے سے روکنا ہے ۔
آج ہماری فطرت توحید کے منافی صدائیں لگارہی ہیں ، ہم دین کے علاوہ بچہ کے تعلق سے ہرچیز کی فکر کرتے ہیں کہ اس کی تعلیم شاندار بن جائے ، اس کا کیرئیر اچھا بنے ، اچھی جدید انگریزی بولے ، معاشرے میں اس کا مقام عمدہ ہو، اس کو اچھی ملازمت مل جائے ، کھانے پینے کا نظام اچھا ہو ، بچوں کو ایسے نرسری اسکول، کالج اور انگلش میڈیم میں داخل کیا جاتا ہے ، جہاں اللہ کا نام تو سکھایا ہی نہیں جاتا بلکہ اللہ سے دوری کا راستہ دکھایا جاتا ہے اور عقیدے کا ستیاناس کردیا جاتاہے ، دین کی باتیں نہیں سکھائی جاتی ،بلکہ بددینی، وبددیانتی، بد عہدی اور دنیاوی آسائش کی طرف رغبت دلائی جاتی ہے ۔جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ مسلم نوجوان کو کلمہ، قرآن مجید، نماز وغیرہ صحیح طریقہ سے پڑھنا نہیں آتا ،اور دین سے ناآشنائی کی بنیاد پر ارتداد کی راہ پر گامزن ہو جاتےہیں ،جیسا کہ وقتافوقتادیکھنے میں بھی آرہا ہے کہ کھلم کھلا ارتداد کا اعلان بھی کیاجاتاہے ۔اور ابھی حال ہی میں ہریانہ میں اسی ارتداد کی ایک نظیر دیکھنے کو ملی ہے۔
ہرچیز کی طرف توجہ رہتی ہے مگر دین اور دین کی تعلیمات کی طرف جیسی توجہ ہونی چاہیے ویسی نہیں ہے ۔
حدیث کے بیان کے مطابق اللہ تعالٰی کی ایک سنت ہے کہ جو شخص کسی مخلوق کو راضی کرنے کے لئے اللہ کو ناراض کرے ، تو اللہ تعالیٰ اسی مخلوق کو اس پر مسلط فرما دیتے ہیں ، بچوں کو راضی کرنے کی خاطر یہ سب جہنمی کام مول لے لیتے ہیں تا کہ ان کا کیرئیر اچھا ہو آمدنی اچھی ہو مقام اچھا ہو ۔
دین نہ سکھا کر اللہ کو ناراض بھی کیا ،اور نتیجتا وہی اولاد جس کو راضی کرنے کی فکر تھی وہی اولاد ماں باپ کے سر پر مسلط ہوجاتی ہیں اور ماں باپ کی نافرمان بن جاتی ہیں اور حالات یہاں تک آجاتے ہیں کہ اولاد اپنے ماں باپ کو بہت ہی جلد بڈھاپے کی طرف دھکیل دیتے ہیں،
پہلے خود نماز کی پابندی کریں ، پھر اپنے بچوں کو سات سال کی عمر سے نماز کی تاکید کریں اور حرام خوری سے بچیں اور بچوں کو بچانے کی فکر کریں ، ان کےروبرو جھوٹ نہ بولیں ، بچوں کو اسلامی آداب سکھائیں ، بچوں کو دین کی تعلیم دیں ،اللہ و رسول کا کلمہ سکھائیں ، ان کوکم سے کم دین کی موٹی موٹی باتیں سکھائیں.
اللہ تمام امت مسلمہ کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کا مستقبل سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
17 رمضان المبارک 1441ھ
مطابق 11 مئی 2020ء
Comments
Post a Comment