حضرت مولانا خلیل احمد اکلوی
(قرآن کریم یاد رکھنے کا آسان نسخہ)
اس عنوان کے تحت کل کچھ سطریں تحریر کی تھیں, بہت سے محبین نے پسند کیا ,
اس میں تین لائنوں سے تعلق رکھنے والے حفاظ کرام کو ذہن میں رکھکر بات کی گئی تھی .
آج طلبہء مدارس کے تعلق سے چند تجویزات قلمبند کر رہا ہوں .
عموما یہ بات تجربے میں آئی کہ حفاظ جیسے ہی حفظ سے فارغ ہوکر, درجہ فارسی میں داخل ہوئے اور عربی اول عربی دوم وسوم تک پہنچے, اسکے بعد قرآن شریف سن کر دیکھو, تو بڑا فرق نکلے گا, حفظ کے مقابلے میں بہت کچاوٹ.
اور آگے بڑھے درجہء چہارم و پنجم تک پہنچتے پہنچتے بعضے طلبہ تو رمضان شریف میں سنانے کی ہمت بھی نہیں کرپاتے ,صاف انکار کردیتے ہیں کہ ہم سنا نہیں سکتے ,ہمنے خود اسکا مشاہدہ کیا بڑا قلق و افسوس ہوا اور تب ہی سے ہمارے یہاں ادارے میں یہ نظام ہے کہ عربی وفارسی کے تمام ہی طلبہ کو یومیہ کم از کم ایک پارہ سنانا ضروری ہے .
رابطہ ام المدارس دار العلوم دیوبند کی وجہ سے چونکہ مدارس باہم مربوط ہیں ,اسی وجہ سے اہل مدارس کا مختلف مدارس میں آنا جانا ہوتا رہتا ہے, بہت سارے مدرسوں میں احقر کا بھی جانا ہوا اور وہاں کے نظام تعلیم و تربیت کو بغور دیکھا ,جن میں بعض مدارس کا اسلامی ونورانی اور قرآنی ماحول دیکھ کر بڑی خوشی ودلی مسرت محسوس ہوئی, کہ عربی درجات کے طلبہ درسیات کے ساتھ ساتھ قرآن پاک یاد کر نے میں بھی خوب محنت کرتے ہیں, مگر بعض وہ مدارس جہاں عربی درجات میں کلام اللہ سنانے پر خاص دھیان نہیں ہے, جسکی وجہ سے طلبہ قرآن شریف بھول جاتے ہیں, انکو اس طرف توجہ دینی چاہیے,
اور اوپر مدارس کے طلبہ کے لئے قرآن شریف یاد رکھنے کا جو طریقہ تحریر کیا گیا تھا ,اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ,عمل میں لایا جائے ,اور حضرات اساتذہ کرام دوران تعلیم اسکی ترغیب بہی دیتے رہیں ان شاءاللہ اسکا فائدہ ہوگا.
قرآن شریف یاد رکھنے کا دوسرا طریقہ
میرے دو دو رفیقوں کے والد محترم جو میرے لئے بھی والد کی طرح لائق احترام ہیں جو مابین ستین الے سبعین کی عمر کو پہنچ چکے ہیں, ماشاءاللہ بہت پختہ حافظ قرآن ہیں اور شاندار انداز میں تلاوت کرتے ہیں ,بندے نے ان سے معلوم کیا کہ عمر کے اس آخری مرحلے میں جہاں ایک طرف نقاہت دوسری طرف عوارض و بیماریاں, آپ کے کس طرح اتنا عمدہ یاد ہے, اور حافظے میں موجود ہے, آپ بھولے نہیں, تو حافظ صاحب نے فرمایا کہ میں یومیہ کثرت سے تلاوت کرتا ہوں معلوم ہوا کہ کثرت تلاوت بھی یاد رکھنے کا بہترین نسخہ ہے,
تلاوت قرآن اور اکابرین کی زندگی...................................
چونکہ ماہ رمضان المبارک کی آمد بہت قریب ہے اور کثرت تلاوت یاد دہانی کا اہم ذریعہ ہے, اسلئے میں اکابرین کے معمول کیطرف آپکے ذہن کو متوجہ کرتا ہوں, کہ یہ حضرات رمضان شریف کسطرح گزارتے تھے:
اعلی حضرت شاہ عبد الرحیم صاحب راےپوری رحم اللہ تعالی کا معمول:
آپ 29 /شعبان کو حاضرین سے مصافحہ کرلیتے تھے کہ بھائی اب بس عید پر ملیں گے, چونکہ آپ حافظ قرآن تھے تلات کلام اللہ سے عشق تھا رمضان المبارک میں شب کا قریب قریب سارا وقت تلاوت میں صرف ہوتا تھا ,آپ تراویح میں خود قرآن مجید سناتے اور دو ڈھائی بجے فارغ ہوتے تھے.
سید الطائفہ کا معمول:
سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب نور اللہ مرقدہ رمضان شریف میں مختلف حفاظ سے قرآن مجید سنتے تھے دو سے مغرب کے بعد دو سے عشاء بعد اسکے بعد ایک سے نصف شب تک پھر نماز تہجد میں دو حافظ, غرض تمام رات اسی میں گذرجاتی تھی.
حضرت شیخ الھنڈ رحمتہ اللہ علیہ کا معمول:
آپ کو قرآن کریم سے اسقدر عشق تھا کہ رمضان شریف میں رات کا اکثر حصہ بلکہ تمام رات قرآن مجید سننے میں گزار دیتے تھے کئی کئی حافظوں کو سنانے پر مقرر رکھتے .
حضرت مولانا محمد یحی صاحب رحمہ اللہ کا معمول:
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رحمہ اللہ کے والد محترم مولانا محمد یحی صاحب رحمہ اللہ جو حضرت گنگو ہی رحمہ اللہ کے مرید تھے اور بعد میں حضرت سہارنپوری سے بیعت ہوگئے تھے آپ بہت ہی کثرت سے تلاوت کرتے تھے کاندھلہ جاکر تین شب میں قرآن مجید سناکر سہارنپور واپس آجاتے تھے اور وصال کے سال تو ایک رات میں ہی سناکر واپس آگئے تھے .
اکابرین کے کثرت تلاوت کے واقعات سے ہمیں بھی سبق حاصل کرکے بکثرت تلاوت کا اہتمام کرنا چاہیے اس طریقے سے ہمیں قرآن شریف یاد بھی رھیگا اور بھلانے پر احادیث میں جو وعیدیں آئی ہیں انکے مصداق بھی نہیں بنیں گے
اللہ تعالی عمل کی توفیق عطاء فرمائے آمین.
یہی ہیں جن کے سونے کو فضیلت ہے عبادت پر
ان ہی کے اتقاء پر ناز کرتی ہے مسلمانی
العبد: خلیل احمد اکلوی
خادم مدرسہ بحر العلوم رائے پور اترکھنڈ
Comments
Post a Comment